Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 5

"کیسے ہیں آپ ایس پی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی عارف شاپنگ کر رہا تھا اچانک اُس کے پیچھے ایک آواز اُبھری وہ چونک کر پلٹا سامنے اُس دن والے لڑکے کو دیکھ کر حیران ہوا۔ "تُم۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں میں،کہا تھا نہ کہ جب ملنا ہوگا میں خُود تُم سے ملنے آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنسا کر بولا۔ "تُم مُجھ پر نظر رکھ رہے ہو کیا۔۔۔۔۔"ایس پی عارف اُسکی یہاں اچانک موجودگی سے کُچھ خائف نظر آ رہا تھا۔ "ہاں شاید۔۔۔۔۔۔"وہ کندھے اُچکا گیا۔ "مُجھ پر نظر رکھنے سے کیا حاصل ہوگا تُمہیں بہتر ہے جس کیس کے بارے میں اُس دن ثبوت فراہم کرنے کی بات کر رہے تھے وہ دو۔۔۔۔۔۔"وہ شاپنگ کا ارادہ ترک کرتے اُسکی طرف متوجہ ہوئے۔ "ثبوت بھی دُونگا پہلے جو اُس دن مریام شاہ اور بلوچ کی دُشمنی کی اصل وجہ تلاش کرنے کا بولا تھا اُس کا کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ مال میں نظریں دوڑانے لگا۔ "وہ مُجھے پتہ ہے آج سے بہت سال پہلے ہی اس کے بارے مُجھے علم ہو چُکا تھا۔۔۔۔۔۔۔" "کیا علم ہوا،میں بھی سُننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔" "یہی کہ مریام شاہ کے باپ اور بلوچ کی کسی بزنس ڈیل کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔" "غلط،بلکل بکواس۔۔۔۔۔۔۔"وہ بات کاٹ گیا تو ایس پی عارف نے کُچھ اُلجھن سے دیکھا۔ "تُمہیں جس نے بھی یہ جھوٹا سچ بتایا ہے وہ تُمہاری بیوقوفی پر ضرور ہنستا ہوگا۔۔۔۔۔۔" "کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔"ایس پی کو اسکی مُسکراہٹ ناگوار گُزری۔ "یہی کہ ایس پی تُم دماغ کا بہت کم استمال کرتےہو یا پھر تُم بلوچ سے اتنے خوفزدہ ہو کہ اُس کے خلاف جاتے ہوئے ڈرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔"اسکے لہجے میں ایک عجیب سی کاٹ تھی جو ایس پی عارف کے چہرے کو لال سُرخ کر گئی۔ "بُرا مت ماننا،پر تُم میرے دئیے گئے پہلے ٹاسک میں بُری طرح ناکام ہوئے ہو،اب دوسرا ٹاسک یہ ہے کہ تین بندوں کا نام دیتا ہوں انکی ہسٹری نکالو کہیں سے بھی،راٹھور،بلوچ اور حاکم۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے مُنہ سے نکلنے والے نام ایس پی کو ساکت کر گئے۔ "تُم،تُم کیسے انکے بارے میں جانتے ہو،کہیں تُم اُن کے ہی بندے تو نہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے لگا۔ "فکر نہ کرو ایسا کُچھ نہیں،تُم بس انکو تلاش کرو باقی پھر بعد میں،مُجھے پورا یقین ہے ایس پی کہ تُم ایسا کر سکتے ہو،آخر کو بارہ سال سے اس کیس پر کام کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔" "چلتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے پُر سوچ چہرے پر نظر ڈالتا وہ مڈ بھیڑ میں گُم ہوتا اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ایس پی عارف چاہ کر بھی اسے روک نہ سکا۔ "اسے کیسے پتہ ان لوگوں کا،یہ لوگ تو آج سے بارہ سال پہلے صرف میں نے دیکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا

"__________________________________"

اس وقت مریام شاہ اپنے موبائل کی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا سکرین پر ایک کمرے کا منظر تھا جہاں پرخہ اور صندل بُوا نظر آ رہی تھیں۔ "بُوا کیا رات کو کوئی آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کُھلی کھڑکی اور میز کی طرف دیکھ کر بولی جو اپنی جگہ پر تو تھا پر دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا دوسرا وہ احساس وہ خوشبو تھی جو اسے اپنے ارد گرد محسوس ہو رہی تھی اُسکی بات پر مریام مُسکرایا۔ "ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مریام تُمہارے قریب جائے اور تُمہیں محسوس نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں بیٹا،کس نے آنا تھا بھلا،تُمہارا وہم ہے،میں ناشتہ بنا کر لائی ہوں اب کر لو تُم۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا کے کہنے پر وہ سر اثبات میں ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی مُنہ ہاتھ دھو کر بالوں کی چُٹیا کر کے وہ ناشتہ کرنے لگی اس چیز سے بے خبر کہ کوئی اُس کی حرکات پر نظریں رکھے ہوئے تھا۔ "آپ نے ناشتہ کر لیا بُوا۔۔۔۔۔۔" "میں نے آج وہی کچن میں ناشتہ بنا لیا،آج نسیماں بیگم کے بھائی بھاوج اپنے بچوں کے ساتھ آ رہے، بہت کام کچن میں تُم اُس طرف مت آنا۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ ناشتے سے ہاتھ روک کر اُنکی طرف دیکھنے لگی۔ "پر کیوں،آپ اکیلی اتنا سب کیسے کریں گئیں۔۔۔۔۔" "تُم میری فکر مت کرو،مٹھی ہے نہ میرے ساتھ،دوسرا مُجھے نسیماں بی بی کا بھتیجا ایک آنکھ نہیں بھاتا اُس کی موجودگی میں تُمہارا وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔۔۔۔"بُوا کی بات پر مریام شاہ کے کان کھڑے ہوئے تھے اُس نے بڑے غور سے پرخہ کے فق ہوتے رنگ کو دیکھا تھا۔ "وہ،بُوا مُجھے آپکے ساتھ جانا ہے بس۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے کھڑی ہو کر انکے قریب آئی۔ "میں کہہ تو رہی ہوں کہ وہاں جانا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔" "یہاں رہنا بھی ٹھیک نہیں بُوا،پچھلی بار بھی وہ جب آیا تھا تو،تو یہاں کمرے میں آ گیا اور۔۔۔۔۔۔" "اور۔۔۔۔۔"جہاں صندل بوا کے سینے پر ہاتھ ٹکا تھا وہاب مریام شاہ کی گرفت بھی اپنے موبائل پر سخت ہوئی اور ساتھ اُسکی آنکھیں لہو رنگ ہوئیں۔ "اور وہ بہت گندی باتیں کرنے لگا پر شُکر کہ نمل اُسے لینے آ گئی،مُجھے تب سے بہت ڈر لگتا ہے بُوا بہت۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ اُسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے جبکہ مریام شاہ کے پورے وجود میں اذیت کی لہر دوڑ گئی۔ "ڈرنا نہیں بچے میں ہوں نہ،جب تک زندہ ہوں تُم پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دُونگی۔۔۔۔۔۔۔"اُنکا وجود چاہے کمزور تھا مگر اُنکا لہجہ اتنا مضبوط تھا کہ ہمیشہ کی طرح پرخہ کو ڈھارس دے گیا وہ اُنکے ساتھ لگ گئی۔ "میں تو اب دن رات دُعا کرتی ہوں کہ مریام بیٹا آ جائے اور تُمہیں اس زندان سے نکال کر لے جائے،میرا کمزور وجود کب تک تُمہارا سہارا بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔" "وہ نہیں آئے گا بُوا،وہ بھول چُکا ہوگا مُجھے میرے اُس وعدے کو،باہر کی دُنیا بہت رنگین ہے کھو چُکا ہوگا وہ بھی،اب تو میری آنکھیں بھی تھک گئیں ہیں انتظار کر کر کے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُن سے الگ ہوتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ "مُجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔۔۔۔۔"اُنکی خُوش فہمی پر وہ تلخی سے مُسکرائی۔ "کب آئے گا جب سب کُچھ ختم ہو جائے گا،میں کہہ رہی ہوں آپ سے اگر وہ نہ آیا تو میں جان دے دونگی اپنی۔۔۔۔۔۔۔"رندھے لہجے میں بولتی دونوں کا دل دہلا گئی۔ "ایسا نہ بولو بیٹا،وہ آئے گا ضرور آئے گا۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکا سر چُوم گئیں۔ "میں آ رہا ہوں پرخہ بس آج کا دن اس زندان میں نکال لو،کیسے بُھول سکتا ہوں میں تُمہیں جان کی طرح بستی ہو میرے اندر لہو کی طرح گردش کرتی ہو کیسے بُھول سکتا ہوں ،بدلہ بعد میں پہلے تُمہیں سوچتا ہوں،بارہ سال تک تُمہارا ورد کیا ہے کیسے بُھول سکتا ہوں کوئی خُود کو بھی بُھولتا ہے کیا،یقین رکھو بس ایک دن اور بس ایک دن اور۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بھیگی آنکھوں کو دیکھتا وہ اپنے دوسرے موبائل کو پکڑ کر کوئی نمبر ڈائل کرتا اپنے کان سے لگا لیا۔ "تُمہارا کام شُروع۔۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر اُس نے کال بند کر دی اور دوبارہ سکرین پر نگاہیں جما دیں جہاں اب وہ کمرے سے باہر نکل رہیں تھیں اس نے ٹچ سکرین کے فنکشنز کو اُنگلی سے چھیڑا اگلے لمحے سکرین پر حویلی کے ہال اور کچن کا منظر اُسکی آنکھوں کے سامنے تھا۔

"___________________________________"

وہ نمل کو لے کر جان بوجھ کر پچھلی سائیڈ پر آیا تھا وجہ پرخہ تک جانا تھا اس لئے اُس کمرے کی طرف دیکھتا بولا۔ "تُم جاؤ میں اپنے دوست کو کال کر کے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔" "ایسا کونسا دوست ہے جسکا فُون تم میرے سامنے نہیں سُن سکتے۔۔۔۔۔۔"نمل نے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ "اُف یار،تم جانتی ہو ایسا کُچھ نہیں،تُمہیں جانے کو اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تُمہارے سامنے میں بات نہیں کر پاؤنگا سارا دھیان تو تُمہاری طرف رہے گا میری جان۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار سجاول نے اپنے لہجے میں پیار کی مٹھاس بھری جس سے نمل مُسکراتی سر ہلا گئی۔ "اوکے میں اپنے کمرے میں ہوں وہی آ جانا۔۔۔۔۔۔"کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔وہ ادھر اُدھر دیکھتا اُس کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ "پرخہ،مائے سویٹی کہاں ہو تُم۔۔۔۔۔۔"وہ کمرے پر نظریں دوڑا کر واش روم کی طرف دیکھنے لگا تبھی پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ مُسکراتا پیچھے مُڑا پر آنے والے کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔ "تُم نے مُجھے بُلایا اور میں آ گیا،ویسے مُجھے یہ جگہ اتنی اچھی نہیں لگی۔۔۔۔۔۔"وہ جو کوئی بھی تھا مُسکراتا ہوا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔سجاول کے ساکت وجود میں حرکت ہوئی تو اس نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی اور دروازہ کھولنے لگا جبکہ دُوسری طرف وہ مُسکراتا سر نفی میں ہلا کر ہاتھ میں پکڑی تیزابی سپرے اُسکی آنکھوں پر چھڑک دی جس سے وہ تڑپتا وہی گر گیا۔ "میری آنکھیں،بچاؤ میری آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ چیخ رہا تھا۔ "مُجھے شور نہیں پسند اور تُم مسلسل میری پسند کے خلاف جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا اسکے قریب گُھٹنوں کے بل بیٹھا جوتے سے تیز چاقو نکال کر اُسکی زبان پکڑ کر بے دردی سے کاٹ دی وہ جو پہلے ہی اپنی آنکھوں کی وجہ سے تڑپ رہا تھا اب تو درد سے بلبلا کر رہ گیا۔ "تُم نے بُری نظروں سے میری عزیز جان ہستی کو دیکھا،اس زبان سے نکالے گندے لفظوں سے اُسے پریشان کیا،اُسکا حق تُمہیں کس نے دیا،سزا تو ملنی تھی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے مُنہ سے نکلتے خُون اور اُسکے تڑپتے وجود کو بڑے دُکھ سے دیکھنے لگا۔ "یہ مریام شاہ بھی نہ،بہت ظالم آدمی،دیکھو تو کیسے اُس نے تُمہارے لئے یہ سزا مُنتخب کر لی بنا تُمہاری تکلیف کا سوچے۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اُسکی طرف دیکھا جس کی آنکھوں سے بھی خُون بہنا شُروع ہو گیا تھا وہ حال سے بے حال ہوتا سسک رہا تھا۔ "پر میں بہت نرم دل ہوں،تُمہیں اس حالت میں دیکھ کر میرا دل دُکھ رہا اس لئے تُمہیں اس اذیت سے نکالنے کا حل ہے میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اس نے اپنی جیب سے پسٹل نکال کر اُس کے سینے میں چھ کی چھ گولیاں ٹھوک دیں۔ "گُڈ بائے۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلا جہاں گُھمن کھڑا تھا۔ "اسے حویلی کی پچھلی سائیڈ پر پھینک دو اور کمرے میں لگے اُسکے خون کو صاف کر دینا،میں زرا بلوچ سے اُسکے ہونے والے داماد کی تعزیت کر لُوں بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں پر دل جلا دینے والی مُسکراہٹ تھی۔گُھمن مُسکراتا اُسکے ہاتھ سے پسٹل لیتا کمرے میں گُھس گیا۔

"___________________________________"

نور حویلی میں تو جیسے کہرام مچ گیا تھا سجاول کی لاش حویلی کی پچھلی سائیڈ سے کسی گارڈ کو ملی تھی۔ "اتنی بے دردی سے قتل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سب کے لبوں پر یہی بات تھی۔بلوچ تو جیسے آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ "نہیں بچے گا مریام شاہ تُو میرے ہاتھوں سے،ایسی موت دُونگا پناہ مانگو گئے۔۔۔۔۔۔۔" "پر بلوچ سائیں بات سوچنے کی ہے کہ سجاول دیوار پھلانگ کر باہر گیا تو کیوں گیا؟،کیونکہ سی سی ٹی وی کیمروں کے مطابق سجاول مین گیٹ سے باہر نہیں نکلا۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات پر بلوچ نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ "یہی تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا بابا کہ سجاول دیوار پھلانگ کر آخر کیا لینے باہر گیا،اور کون تھا جو اُس کے باہر نکلنے کے تعاقب میں باہر کھڑا تھا اُسے مارنے کو،مریام شاہ کو سجاول کو اتنی بے دردی سے مار کر آخر کس چیز کا فائدہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔" "میں بھی یہی سوچ رہا سائیں کہ سجاول جو آپ کے سالے کا بیٹا ہے اُسے مار کر کیا ملنا تھا اُسے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو نے کہتے ہوئے دُوسری طرف دیکھا جہاں پرخہ روتی ہوئی نمل کو چُپ کروا رہی تھی جونیجو رات سے دیکھ رہا تھا وہ نمل کے ساتھ ہی تھی۔ "وہ دھی ہے میری نمل،سجاول کی منگ تھی بے چاری،بہت بُرا حال ہے اسکا۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتا بولا۔ "اور وہ جو اُسے چُپ کروا رہی۔۔۔۔۔۔"اب اسکا اشارہ پرخہ کی طرف تھا۔ "وہ بھتیجی ہے میری۔۔۔۔۔۔"اب کی بار بلوچ کے لہجے میں نفرت کی جھلک آئی۔ "لگتا آپکو یہ پسند نہیں۔۔۔۔۔"جونیجو نے بہت گہرائی سے اس کے تاثرات کا جائزہ لیا۔ "ہاں،زہر لگتی مُجھے منحوس پر میرے بہت کام کی چیز ہے،سمجھو دُشمن کی جان میرے قبضے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔" "وہی جو مریام شاہ کی کمزوری ہے۔۔۔۔۔۔"جونیجو یاد آنے پر بولا۔ "ہاں وہی،مریام شاہ کی بیوی ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر جونیجو نے حیران ہوتے ہوئے پرخہ کو دیکھا تھا۔ "مریام شاہ کی بیوی۔۔۔۔۔۔۔"وہ زیر لب بولا پھر دوسری طرف دیکھنے لگا جہاں بلوچ سے تعزیت کرنے لوگ آ رہے تھے۔

"__________________________________"

"بلوچ سائیں باہر کوئی لڑکی آئی،کہتی نمل بی بی سے ملنا اُنکی دوست ہے،افسوس کرنے آئی۔۔۔۔۔۔۔"گارڈ کے اطلاع دینے پر بلوچ نے گیٹ کی طرف دیکھا جہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ "ٹھیک ہے جانے دو اسے اندر۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر گارڈ سر ہلا کر چلا گیا۔وہ لڑکی اندر کی طرف بڑھتی راہداری میں رُکی دُوسری طرف سے آتے جونیجو کو دیکھ کر اُسکی طرف بڑھی۔

   0
0 Comments